سیّد عبدالرزاق نورُالعین رحمتہ اللہ علیہ
آپ اسی سفر میں جیلان تشریف لے گئے، اور وہاں اپنے ایک عزیز سیّد حسن عبدالغفور رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی، جو حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے نسل اور خاندان سے تھے۔اور حضرت غوث العالم کی خالہ زاد بہن ان کے نکاح میں تھیں، وہاں کے سادات بڑے حسنِ عقیدت سے پیش آئے، کچھ مدت آپ نے وہاں قیام فرمایا، حضرت سید حسن عبدالغفور کے بلند اقبال صاحبزادے سید عبدالرزاق سے وہیں ملاقات ہوئی، اس وقت سید عبدالرزاق کی عمر بارہ سال کی تھی۔
حضرت غوث العالم کو دیکھتے ہی صاحبزادے کو حضرت سے اس قدر وابستگی ہوگئی کہ ہمہ وقت حاضر خدمت رہنے لگے، حضرت غوث العالم بھی ان کی اس سعادت مندی سے بہت متأثر ہوئے، اور ان پر اپنی خاص نظر عنایت فرمائی اور ایسا اپنا بنالیا کہ آپ کے والد بزرگوار اور اہلِ خاندان نے بہت سمجھایا؛ لیکن کچھ اثر نہ ہوا، آپ نے والدین سے جدائی گوارا کرلی؛ لیکن حضرت غوث العالم سے جدا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے، جب سید عبدالغفور نے حضرت کی طرف اس قدر میلان دیکھا تو صاحبزادے کو خود حضرت کی خدمت میں لائے اور کہا کہ میں اس لڑکے کو اللہ کے واسطے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور حقوق معاف کرتا ہوں، ماں نے بھی اپنے جگر گوشہ کو بہ خلوص حضرت کی نذر کردیا، والدین ے اصرار پر حضرت نے بخوشی صاحبزادے کو اپنے فرزندی میں قبول کیا،اور پرانی قرابت کو تازہ کردیا، حضرت غوث العالم آپ کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”دوسروں کو ان کی پشت سے اولادیں ہوتی ہیں اور میں نے عبدالرزاق کو براہ چشم جنا ہے“
حضرت کی اس تربیت اور فیض صحبت سے صاحبزادے نے ”نورالعین“ کا خطاب پایا، حضرت آپ کو اپنے ہمراہ سمنان لے گئے، وہاں اپنی بہن خدیجہ بیگم کا دودھ پلوایا تاکہ نسبت ظاہری بھی ہوجائے، خدیجہ بیگم نے فرمایا کہ اس لڑکے کو دیکھنے سے میرے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے، اور بوئے یگانگت آتی ہے، آپ نے فرمایا یہ لڑکا میرا بھانجہ ہے، اور ضاندانِ غوث الاعظم سیّد محی الدین عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ہے، یہ کلمات سن کر خدیجہ بیگم خوش ہوئیں، اور حضرت نورالعین کو اپنی گود میں لے لیا، اور مبارکباد دی، اور فرمایایہ ہمارا فرزند ہے، حضرت انھیں اپنے ہمراہ روح آباد لائے اور سفر حضر میں ان کو اپنے ہمراہ رکھتے تھے، سیّد عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی، اور حضرت غوث العالم کی وفات کے بعد چالیس سال سجادہ نشیں رہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا کہ میں نے عبدالرزاق اور ان کے فرزندوں کو خزانۂ الٰہی سے حصہ دلایا ہے، اور بارگاہِ خدا میں دعا کی ہے کہ اگر عبدالرزاق کی اولاد قانع رہیں تو کسی کی محتاج نہ ہوں، ان کی تھوڑی فکر وتوجہ پر ہمت مرداں مدد خدا ان کے کام آئے گی، فرزاندانِ نورالعین عزیزالوجود ہوں گے، اگر مخلوق کے دروازے پر جائیں گے تو خوار ہوں گے، آپ نے فرمایا کہ میں کسی مخلوق کا اتنا احسان مند نہیں بنا جتنا نورالعین کا، انھوں نے میری ایسی خدمت کی ہے کہ کسی سے ممکن نہیں، انھوں نے تنہا سات برس تک میرے وضو کا بچاہواپانی پیا ہے، اور میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ اس آبِ حیات کی تاثیر وبرکات ان میں اور ان کی اولاد میں قیامت تک باقی رہے، ”لطائف اشرفی“ اور مکتوباتِ اشرفی“ میں متعدد مقامات پر غوث العالم کا ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو کچھ نعمتیں اور فیوض وبرکات مجھ کو حاصل ہوئے وہ سب میں نے نورالعین کو عطا فرمایا۔
ایک مکتوب جو آپ نے نورالعین کے نام لکھا ہے یہ دعا فرمائی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ تم کو درجۂ اشرفیت عطا کرے“ اور اس سے زیادہ مرتبہ نورالعین کا اور کیا ہوسکتا ہے کہ آپ خود اشرف ثانی ہوئے، اور فی الحقیقت آپ حضرت غوث العالم کے ذاتاً وصفاتاً مظہر اتم تھے۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972